امریکہ کی ایران کو سخت زبان میں دھمکی

امریکہ کی ایران کو سخت زبان میں دھمکی

منگل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے ایران کے بارے میں کہا کہ امریکہ ایران کے اتحادیوں کے کسی بھی حملے کا سختی سے جواب دے گا۔ یہ تبصرے اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعہ پر شدید کشیدگی کے درمیان سامنے آئے ہیں۔

امریکہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے نمائندہ بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ایران کے ساتھ تنازعہ نہیں چاہتا اور جنگ کے پھیلاؤ کو روکنا چاہتا ہے۔ لیکن انہوں نے واضح کیا کہ امریکی اہلکاروں کے خلاف جہاں کہیں بھی حملے ہوں گے ان کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔

امریکہ نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف لڑنے والے اتحاد کے ایک حصے کے طور پر عراق میں تعینات امریکی فوجیوں پر نئے حملوں کی حمایت کر رہا ہے۔ ایران کی روحانی قیادت نے عوامی سطح پر حماس کی حمایت کی، جس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف پرتشدد حملے کیے، جس سے اسرائیل کی طرف سے ایک اہم ردعمل سامنے آیا۔

اس کے علاوہ، ایران کے لبنانی شیعہ گروپ حزب اللہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جو بارہا اسرائیل کے ساتھ جھڑپیں کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکہ نے اسرائیل اور حماس کے تنازع پر ایک مسودہ قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔

امریکہ کا فیصلہ اس یقین پر مبنی تھا کہ قرارداد میں اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا واضح طور پر تحفظ ہونا چاہیے۔ امریکہ نے بعد میں ایک نئی قرارداد پیش کی جس میں بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کا احترام کرتے ہوئے اسرائیلی اور فلسطینی متاثرین سے اظہار تعزیت اور "ہر قوم کے انفرادی اور اجتماعی اپنے دفاع کے موروثی حق" کی توثیق کی دفعات شامل تھیں۔

سلامتی کونسل کے ساتھ اپنی کال میں سیکرٹری بلنکن نے حماس کی کارروائیوں کے نتیجے میں معصوم جانوں بالخصوص بچوں کے ضیاع پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان سانحات پر دنیا کے ردعمل پر سوال اٹھایا۔ "غصہ کہاں ہے؟ نفرت کہاں ہے؟ ڈس کلیمر کہاں ہے؟ ان وحشتوں کی عوامی مذمت کہاں ہے؟''